دنیا میں دو طرح کے محاسباتی نظام پائے جاتے ہیں، ایک نظام وہ ہےجس میں ہر واقعے کو مادی زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور مادی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر ہرچیزکو پرکھا جاتا ہے چنانچہ اس زاویہ نگاہ کے مطابق حضرت موسی علیہ السلام کا فرعون پر، حضرت طالوت کا جالوت پر، حزب اللہ کا اسرائیل پر، حوثیوں کا سعودی جارحین پر غالب آنا ممکن نہیں۔ لیکن اس کے مقابل ایک معنوی زاویہ نگاہ ہے جس کے تحت کسی بھی میدان میں ہار اور جیت کا معیار تعداد کی کثرت نہیں بلکہ ایمان کی قوت اور طاقت ہے جس کے تحت «کَم مِن فِئَةٍ قَلیـلَةٍ غَلَبَت فِئَـةً کَثیرَةً » اور « إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ» جیسی قرآنی آیات کا مفہوم خارج میں متحقق ہوتا ہے جس کی بہت سی مثالیں صدر اسلام سے لیکر آج تک ہماری نگاہوں کے سامنے موجود ہیں اور عینی طور پر ہم نے اسکا مشاہدہ کیا ہے۔
مادی نقطہ نگاہ سے واقعات کو پرکھنے والے افراد کی زبان پر ہمیشہ کس طرح کے الفاظ جاری ہوتے ہیں؟ ایسے افراد کی بارز خصوصیات کیا ہیں؟ امام خمینیؒ کا انجنئیر بازرگان اور بنی صدر جیسے افراد کے ساتھ اختلاف نظر، کس بنیاد پر تھا؟ شہید قاسم سلیمانی نے امریکی اور اسرائیلی فوجیوں اور افسروں میں پائے جانے والے خوف وہراس کے بارے میں کیا کہا تھا؟ چانچہ اسی حوالے سے تفصیل جاننے کیلئے استاد حسن رحیم پور ازغدی کی بہترین تجزئے پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کجیئے۔
#ویڈیو #رحیم_پور_ازغدی #مادی_محاسباتی_نظام #موسی #فرعون #امام_خمینی #شاہ #امریکی_فوج #خوف #قاسم_سلیمانی #ایمان #ثقافت #جنگ #شکست